کرتا بے زباں
کرتا بے زباں بھی کیا اظہارِ محبت
جو کٹ گئ تھی وقتِ گرفتارِ محبت
رسوائی رہِ حق میں ہی بنتی ہے رکاوٹ
منصور تھا سچا کہ ہوا خوارِ محبت
مجنوں بنے پھرتے ہیں ہوس کے جو پجاری
صحرا سا لگا ہے مجھے گلزارِ محبت
رونے سے بھڑکتا گیا سوزِ جگر و دل
پانی سے نہیں بجھنے کی یہ نارِ محبت
ہو پائے نہ رب چارہ کسی زخم کا ان سے
مر جائے اسی غم میں یہ غمخوارِ محبت
اٹھتا ہی نہیں بوجھ غمِ دوراں کا مجھ سے
بھاری ہے مرے سر پہ بہت بارِ محبت
رکھ لو مجھے گر جان کے تم ادنیٰ سا نوکر
سو کام ترے آئے گا بیکارِ محبت
سر پھوڑ کے مر جائے گے جو در نہ ہوا وا
پھر گور بنے گی سرِ دیوارِ محبت
بخیہ ہو جگر میرا جو مر جاؤں صنم پر
لیتا ہوں کفن واسطے میں تارِ محبت
ملتے ہی رسن چوم گلے سے میں لگایا
حقدار خوشامد کا ہے یوں دارِ محبت
سب نیکیاں قربان ہو اس ایک خطا پر
زاہد سے اچھا لاکھ گنہگارِ محبت
صد دشت بھی لگتے نہیں اب خاک برابر
وحشت میں یوں رکھتا ہے مجھے خارِ محبت
مصروف کہ مخمورِ صبوحی و سبوغی
دن رات لگا رہتا ہے مے خوارِ محبت
اپنی یہ غزل جی سے پسند آئی ہے مجھ کو
خوش لگتی ہے دل کو مرے تکرارِ محبت
غالب کے قدم دھو کے جو پیتا ہو *سکندر*
جانے گا کیونکر نہ وہ اسرارِ محبت